ہاتھی والوں کا قصہ
ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔
اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔
راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔
اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔
یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔
اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔
اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔
“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔ (آیت – ١ تا ٥)