Home Blog

Inspirational Good Morning Quotes

0

Inspirational Good Morning Quotes

What does “Inspirational Good Morning Quotes” meaning?

Such quotes might focus on themes like gratitude, hope, success, or personal growth, and are often shared in texts, on social media, or even in daily routines to set a positive tone for the day.

GOOD, BETTER, BEST. NEVER LET IT REST.

UNTIL YOUR GOOD IS BETTER AND YOUR BETTER IS BEST..!

“Life fails to be perfect, but never fails to be beautiful.”

EVERYONE DESERVES A CHANCE

TO CLEAN UP THEIR MISTAKES..!

“SEEK RESPECT. NOT ATTENTION. IT LASTS LONGER.”

“Spoil me with loyalty. I can finance myself.”

“YOU DON’T HAVE TO DO WHAT EVERYONE ELSE

IS doing FOCUS ON YOUR GOALS.

“I don’t want a perfect life, I want a happy life.”

“Start your Day with a Smile, a Grateful

Heart, and a Positive Attitude..!”

“In every situation you can choose to get bitter or better.

 

 

ایک گنہگار کی توبہ کا سبق آموز واقعہ

0

ایک گنہگار کی توبہ کا سبق آموز واقعہ

بیان کیا جاتا ہے کہ کسی ولی خدا کے زمانے میں ایک شخص بہت زیادہ گناہ گار تھا۔ جس نے اپنی تمام عمر لہو و لعب اور بیہودہ چیزوں میں گزاری اور آخرت کے لیے کچھ بھی زادے راہ اکٹھا نہ کر سکا۔ نیک لوگوں نے اس سے دوری اختیار کر لی تھی اور وہ بھی نیک لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا تھا۔

عمر کے آخری حصے میں جب اس نے اپنے کارناموں پر نگاہ ڈالی اور اپنی عمر کا جائزہ لیا تو اسے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔ کیونکہ اسے اپنے دامن میں کوئی بھی نیک عمل نظر نہ آیا۔ یہ دیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ توبہ و استغفار کے ارادے سے بارگاہ الہی میں عرض کیا “اے دنیا و آخرت کا مالک اس شخص کے اوپر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ہے اور نہ آخرت”۔

اس کے مرنے کے بعد شہر والوں نے خوشی منائی اور اس کو شہر سے باہر کسی کھنڈر میں پھینک دیا۔ اس موقع پر اس ولی خدا کو عالم خواب میں حکم ہوا کہ اس کو غسل و کفن دو اور متقی پرہیزگاروں کے قبرستان میں دفن کرو۔

عرض کیا اے رب العالم وہ ایک مشہور و معروف گناہ گار و بدکار تھا۔ وہ کس چیز کی وجہ سے تیرے نزدیک عزیز اور محبوب بن گیا اور تیری رحمت و مغفرت کا حقدار بن گیا؟

جواب آیا: اس نے جب اپنے آپ کو بے یارومددگار دیکھا تو ہماری بارگاہ میں گریہ و زاری کی؟ ہم نے اس کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیا ہے۔ کون ایسا دردمند ہے جس کے درد کا ہم نے علاج نہ کیا ہو؟ اور کون ایسا حاجت مند ہے جو ہماری بارگاہ میں روئے اور ہم اس کی حاجت پوری نہ کریں۔

کون ایسا بیمار ہے جس نے ہماری بارگاہ میں گریا و زاری کی ہو اور ہم نے اس کو شفا نہ دی ہو۔ تو میرے عزیز مسلمان بہن و بھائیو انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی ہر ایک سے سرزد ہو جاتی ہے۔ لیکن خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے اپنی حالت کو پہچان لیا اور اپنی زندگی میں ہی سچے دل سے توبہ کر لی۔

10+ Love quotes in Urdu

0

10+ Love quotes in Urdu

Love, an emotion that transcends boundaries, is beautifully expressed in the mellifluous language of Urdu. With its poetic essence and lyrical charm, Urdu has long been associated with articulating the depths of affection, desire, and passion. Let’s explore 30 exquisite love quotes in Urdu that encapsulate the essence of romance:

‏وہ ازل سے ہی مجھ میں تھا موجود
عشق نے تو صرف آگاہی دی ہے بس

 

‏آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوی رات کھالی نہیں جاتی

‏کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئ

 

آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا

 

مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں ؟
بیٹھیئے میں بُلا کے لاتا ہوں

 

مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا

 

یہ ذات تماشا بن چکی ہے
دنیا کے میلے سے تھک چکی ہے

 

کاش کوئی تو ایسا ہو
جو اندر سے باہر جیسا ہو

 

احمقانہ ہے درد بیاں کرنا
عقل ہے ضبط کی انتہا کرنا

 

‏رنگوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
رنگ بدلنے والوں سے لگتا ہے

‏کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر
کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر

Top 10+Sister Quotes in Urdu

0

Top 10+Sister Quotes in Urdu

Sister is somebody, you can constantly freely talk, You can share your deepest feelings with her. The bond in between them is just impressive · Siblings, be it more youthful or older, always bring joy in our lives and we constantly like them.
We (Urdu Quotation) enjoy that we brings you the best Quotes regarding siblings. We hope you enjoy this blog post. Kindly share these sister prices estimate in Urdu on your social media sites.

we have also collection of Motivational quotes , life quotes and many others

بھائی اور بہن کے درمیان اگر لڑائی نہ ہو تو زندگی بہت بورنگ لگتی ہے ۔

بھائی اپنی بہن سے چاہے کتنی ہی لڑائی کیوں نہ کرلے لیکن اپنی بہن کی آنکھ میں آنسو تک نہیں دیکھ سکتا ۔

بھائی وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ اپنی بہن کے لئے پیار رہتا ہے ۔

 

 

رات کو برتن صاف نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں

0

رات کو برتن صاف نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں

 

جواب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیں گے اور آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا فرمان ہے اس بارے میں آپ کو آگے تفصیل سے بتایا جاۓ گا

کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک عورت نے اپنے گھر کی پریشانیاں بیان کی اور فرمایا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے گھر میں کیوں بے برکتی ہوتی ہے؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  دریافت فرمایا کہ کیا تم رات کو برتن دھو کر سوتی ہو؟ یا جوٹھے برتن اسی طرح سے چھوڑ کر سو جاتی ہو؟ تو اس عورت نے کہا میں تو رات کو برتن ویسے ہی چھوڑ کر سو جاتی ہو تو اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ تمہارے گھر میں پریشانیوں اور بے برکتی کی وجہ یہی ہے۔ اس لیے رات کو برتن صاف کر کے سویا کرو۔

اس بات سے معلوم ہوا کہ رات کو جوٹھے برتن نہیں چھوڑنے چاہیے۔ اور اس بارے میں سائنس کا بھی یہ کہنا ہے کہ اگر برتنوں کو زیادہ دیر کے لیے گندا چھوڑ دیا جائے تو ان میں نقصان دہ قسم کے بیکٹیریا پیدا ہو سکتے ہیں جو کہ مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جب برتنوں میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں گی تو مختلف زہریلے کیڑے مکوڑوں کا بھی ان میں چلنے پھرنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ رات کے برتن رات کو ہی دھو لیے جائیں

دوستو یہاں پر آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی کوئی تعلیم سامنے نہیں آئی ہیں جس میں رات کو برتن دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں کوئی تشریح ہو لیکن رات کو سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانپنے کے بارے میں تاکید ملتی ہے اور اس بارے میں مختلف روایات ہیں جن میں یہ سبق ملتا ہے کہ سونے سے قبل کھانے پینے کے برتنوں کو بسم اللہ کہہ کر ڈھانپ دینا چاہیے اگر کوئی چیز نہ ملے تو کم از کم ایک لکڑی ہی سہی بسم اللہ کہہ کر اس پر رکھ دی جائے

اس لیے کہ شیطان بند دروازوں کو اور ڈھکے ہوئے برتنوں کو نہیں چھوتا ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں وبا اور بلا نازل ہوتی ہے اور جس چیز کا منہ بند نہ ہو اور جو برتن ڈھکا ہوا نہ ہو اس میں یہ وبا اترتی ہے

کتنی بڑی حکمت ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری سنتوں میں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان سنتوں کو اپنا پکا معمول بنا لیا جائے تاکہ ہم ہر قسم کی مصیبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اتفاق کی بات/ Ittefaq Ki Baat

0

اتفاق کی بات

“Ittefaq Ki Baat”

شیدا ایک بھولا بھالا سا انسان تھا۔آج وہ اپنی بیوی کو لینے اس کے گاؤں جا رہا تھا۔راستے میں اس نے ایک جگہ گدھوں کو گھاس چَرتے دیکھا۔خیر وہ اپنے سسرال پہنچا۔بیوی کے بھائی نے اسے بیٹھک میں بیٹھا دیا۔اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ بھائی! میرے گدھے گم ہو گئے ہیں۔اگر آپ نے دیکھے ہوں تو بتائیے۔

شیدے نے فوراً کہا کہ ہاں میں نے فلاں جگہ گدھوں کو گھاس چَرتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ آدمی دوڑتا ہوا چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ آدمی دوبارہ آیا اور کہا کہ آپ تو عظیم آدمی ہیں۔آپ نے جس جگہ بتایا تھا، ٹھیک اسی جگہ گدھے موجود ہیں، پھر وہ چلا گیا۔
اب روٹیاں پکنی شروع ہوئیں۔چونکہ وہ باورچی خانے کے قریب ہی کمرے میں بیٹھا تھا، اس لئے اسے روٹیوں کے تھپ تھپ کی آواز سنائی دی

اس آواز سے وہ روٹیاں گننے لگا۔جب اسے کھانا پیش کیا گیا تو اس نے تین روٹیاں کھا لی۔جب چوتھی روٹی دی گئی تو اس نے کہا آپ نے کل سات روٹیاں تو بنائیں ہیں، جس میں تین میں کھا چکا ہوں اگر یہ بھی میں کھا لوں تو باقی سب کیا کھائیں گے۔
سالا اسے حیرت سے دیکھنے لگا اور کہا کہ آپ کو تو اس وقت بادشاہ کے محل میں ہونا چاہیے۔ان دنوں مہارانی کا ہار گم ہے بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ جو بھی وہ ہار ڈھونڈے گا، اسے انعام دیا جائے گا۔

جب وہ بادشاہ کے محل پہنچے تو اس نے سوچا کہ میں اگر چالیس دن کی مہلت مانگ لوں تو میں ہار ڈھونڈ لوں گا۔اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں چالیس دن کا چلہ کاٹوں گا۔آپ کو میں چالیس دن بعد ہار دے دوں گا۔
چالیس دن اس نے محل میں خوب مزے کیے، لیکن چالیسویں دن اسے بڑی پریشانی ہو گئی۔اس نے ہار کو اپنے حساب سے اِدھر اُدھر ڈھونڈا، لیکن ہار نہ ملنا تھا، نہ ملا۔

اب وہ خوب پریشان ہوا۔رات ہو گئی تھی، لیکن اس کی تو نیندیں اُڑ گئی تھیں۔اس کے منہ سے نندرا، نندرا نکل رہا تھا۔((نندرا معنی نیند آ جا) اس کے کمرے کے پاس ہی ایک نوکرانی کھڑی تھی جس کا نام نندرا تھا اور ہار اسی نے چرایا تھا۔اس نے سوچا کہ اس کو تو میرا نام پتا ہے، کل یہ بادشاہ کو میرا نام بتا دے گا اور میں پکڑی جاؤں گی۔سودہ شیدے کے پاس آئی اور اس سے معافی مانگی اور ہار اسے دے دیا۔شیدا تو بہت خوش ہو گیا۔اس نے چپ چاپ ہار لیا اور سو گیا۔
صبح اس نے وہ ہار بادشاہ کو دے دیا۔جب بادشاہ نے وہ ہار دیکھا تو خوش اور حیران ہو گیا۔اس نے شیدے کو ڈھیروں انعام کے ساتھ رخصت کر دیا۔

۔

ماں کا انتظار

0

ماں کا انتظار


صائمہ کے ساتھ میری ، بہت ہی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا۔ اس لئے ملاقات میں آسانی تھی ۔ اس کی ماں کو ہم آنٹی شیریں کہا کرتے تھے۔ وہ واقعی بے حد شیریں گفتار تھیں۔ مجھ سے بیٹی جیسا پیار کرتی تھیں، میں بھی ان کا ادب ماں سمجھ کر کرتی کیونکہ میری ماں بچپن ہی میں فوت ہو چکی تھیں ۔ میں ان کے پیار میں ممتا کی مٹھاس ڈھونڈا کرتی تھی۔ تب ہی اس گھرانے سے مجھے دلی لگاؤ تھا۔ صائمہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ سب ہی اس سے پیار کرتے تھے- اس کے والد کی نوکری نزد یکی گاؤں میں تھی ۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ہمارے شہر میں صرف ایک ہی کالج تھا۔ وہ دراصل بوائز کالج تھا، بعد میں لڑکیوں کو بھی داخلے کی جازت مل گئی، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا اور یہاں ابھی تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالج تعمیر نہیں ہوا تھا۔ صائمہ فرسٹ ایئر میں تھی اور پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کو بڑی مشکل سے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت ملی تھی، ورنہ گاؤں کے کہاں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے حق میں ہوتے ہیں۔ سب ہی اس پر رشک کرتے ، اس کی ہم جولیاں اسے خوش نصیب کہتیں کیونکہ وہ خود میٹرک کے بعد کالج جانے کی حسرت لے کر گھر بیٹھ گئی تھیں، جن میں اس کی اپنی بڑی بہن ثمرین بھی تھی، جو صرف میٹرک کر سکی تھی ، آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی، اس کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی ہونے والی تھی۔ ثمرین بہت خوبصورت تھی ، تب ہی آنا فانا رشتہ اور اب چند دنوں بعد شادی تھی۔ تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، صائمہ بھی بہن کی شادی کے سلسلے کافی مصروف تھی ۔ دو دن رہ گئے تو وہ ہمارے گھر شادی کارڈ دینے آئی۔ آنٹی شیریں ساتھ آئی تھیں ۔ کہنے لگیں کہ ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔ میری سوتیلی امی تھیں، ان سے پوچھا گیا۔ ہم بشری کو لے جائیں کیونکہ یہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی ۔ امی نے انکار نہیں کیا۔ یوں میں دو دن کی چھٹی ے کر ان کے گھر چلی گئی ۔ کبھی بھی معمولی سی بات کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتی ہے اور زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس دن کافی مہمان آئے ہوئے تھے کیونکہ شام کو بارات آنے والی تھی، ہم سب کام میں مصروف ے۔ سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔ اگلے روز وقت مقررہ پر بارات آگئی اور ہم لڑکیاں باراتیوں کو دیکھنے چھت پر پہنچ گئیں، میں بھی شوق دیدار میں گئی۔ بارات میں آئے ایک لڑکے پر نظر ٹہر گئی یہ خوبرو نوجوان تھا اور اس کا نام بدر منیر تھا، صائمہ کا کزن تھا۔ وہ آگے آگے تھا۔ میری نگاہیں بار بار اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ اس نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اب وقفے وقفے سے اس کی نظریں بھی مجھے تلاش کرنے لگیں ۔ ایسا اکثر شادیوں میں ہوتا ہے کہ آپ کے دل کے کورے کاغذ پر کسی کی تصویر اچانک بن جاتی ہے، گھر آئی تو دل عجیب احساسات سے بھرا تھا۔ بار بار رہ رہ کر منیر کی صورت نگاہوں میں پھرتی تھی ، اس کا خیال آتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اے کاش ایک بار اور کہیں اس کو دیکھ پاؤں تو سجدہ شکر بجالاؤں۔ خدا نے دعا سن لی۔ کالج آئی تو وہ نظر آ گیا۔ وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا لیکن کبھی میں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اچانک دیکھا تو دل خوشی سے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور اب میری طرف ہی آرہا تھا۔ آپ یہاں اس نے سوال کیا … میں فرسٹ ائیر میں ہوں اور آپ؟ میں یہاں انٹرمیں پڑھتا ہوں یہاں کبھی دیکھا تو نہیں بس اتفاق ہے، دیکھا ہوگا بھی تو دھیان نہیں دیا ہوگا۔ چلئے اب تو نہیں بھولیں گی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو میرے لبوں سے بھی بے اختیار ہی یہ کلمات نکل گئے . کبھی نہیں. اس دن کے بعد ہم دونوں روز ملنے لگے۔ جب فری پیریڈ ہوتا میں اور منیر کینٹین میں اکھٹے کچھ کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ وقت کیسے تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں تھرڈ ایئر اور وہ فورتھ ایئر میں پہنچ گیا ۔ ہماری جدائی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا کیونکہ منیر کے کالج چھوڑتے ہی یہ دن شروع ہو جانے تھے۔ جدائی کے موسم آنے سے پہلے ہم کو کچھ ایسا قدم اٹھانا تھا کہ ہم ایک ہو جائیں لیکن اس کے لئے گھر والوں کی رضامندی ضروری تھی۔ میری تو ماں بھی سوتیلی تھیں ۔ گھر والوں کو پسند سے آگاہ کرنا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوتا یہ کہ امی ابو میرا کالج جانا بند کرا دیتے۔ میں گریجویشن سے محروم ہو جاتی- تب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ مبادا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، تاہم میری شدید خواہش تھی کہ منیر میرا جیون ساتھی بنے ، اس کا بھی یہی ارمان تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہا کرتا تھا اگر تم سے شادی نہ ہوسکی تو یقین جانو کہ میں کچھ کھا کر مرجاؤں گا، کیونکہ میں تمہاری جدائی کا صدمہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ کالج سے آکر سب سے پہلے اسے فون کرتی کپڑے بدلتی اور کھانا کھاتی تھی۔ رات کو بھی گھنٹوں ہم فون پر باتیں کرتے، ہمارا دل باتیں کرنے سے بھرتا ہی نہیں تھا۔ ان دنوں جبکہ میرے تھر ڈایئر کے پرچے ہورہے تھے۔ ابو کے ایک رشتہ دار گاؤں سے آئے، مجھے دیکھا تو اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا اور رشتے کی بات کی۔ ابو نے ہاں کر دی اور منگنی کی تاریخ بھی دے دی۔ جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں بہت پریشان ہوئی ۔ ناشتہ بھی نہ کیا اور کالج آتے ہی منیر کو ڈھونڈنے لگی تا کہ اپنی پریشانی سے آگاہ کروں دو پیریڈ بمشکل پڑھے، تیسرا پیریڈ خالی تھا۔ اس کا بھی خالی ہوتا تھا لہذا ہم کینٹین میں آگئے۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ بشری کیا بات ہے تم کیوں اداس ہو۔ بات میرے منہ سے نہ نکل رہی تھی۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے۔ والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا ہے۔ تم کچھ کرو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔ کہنے لگا اگر تم کہتی ہو تو اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دیتا ہوں ، وہ رشتہ طلب کرنے آجائیں گے جیسے بھی ہو، میں ان کو راضی کرلوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے مراد واپس ہوں گے، ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اپنے جس رشتہ دار کو زبان دے دی ہے، وہ ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں، لہذا والد صاحب نہیں مانیں گے۔ امی سگی ہوتیں تو شاید میرے جذبات کا احساس کر کے ابو سے منوا لیتیں لیکن وہ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گی۔ تو پھر تم ہی بتاؤ کہ آگے کیا صورت باقی رہ جاتی ا تم کیا سوچتی ہو؟ اس نے پوچھا اگر تم والدین کی پسند کو قبول کرتی ہو تو میں ہمیشہ کے لئے تمہارے رہتے سے ہٹ جاتا ہوں، پھر کبھی میں تمہاری راہ میں نہیں آؤں گا۔ میں مر تو جاؤں گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی دلہن بننا قبول نہیں ہے۔ میں نے روتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ پھر تو ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کسی بڑے شہر جا کر کورٹ میرج کر لیں اور تم گھر کو خیر باد کہہ دو اگر ایسا کر سکتی ہوتو میں زندگی کے آخری سانسوں تک تمہارا ساتھ نباہنے کو تیار ہوں۔ ٹھیک ہے، میں تمہارا ساتھ دوں گی تم جب کہو کے میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ نکل چلوں گی لیکن جلد ایسا کرنا ہوگا کیونکہ منگنی کی رسم سے پہلے ہی میں تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں اور کسی اور کے نام کی انگھوٹھی اپنی انگلی میں نہیں پہننا چاہتی۔ اچھی طرح سوچ لو کیونکہ مجھے تم جب بھی کہو گی تم کو لے چلوں گا۔ میرا گھر چھوڑنے کا مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا کہ تمہارا ہے۔ سوچ لیا ہے کسی کے ساتھ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے تمہارے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزاروں۔ یہ میرا حق ہے کیونکہ میری سانسیں میرا بدن میری زندگی میری اپنی ہے۔ تو کیوں میں اپنی روح کو کسی اور کے شکنجے میں دوں۔ صرف دوسروں کی خوشنودی کی خاطر … وہ قائل نہ بھی تھا تو میں نے اس کو قائل کر لیا اور پھر ہم نے کورٹ میرج کا پروگرام بنا لیا۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ اس نے کہا کہ رات کو دو بجے میں تمہارا انتظار کروں گا- تمہارے گھر کے پیچھے گلی میں آجاؤں گا۔ جب رات کے دس بج گئے میں بہت پریشان ہو گئی۔ سوچ رہی تھی کہ گھر والے سب سو جائیں تو میں کپڑے تبدیل کروں اور بیگ میں تھوڑا سا سامان ضرورت کا اور چند جوڑے کپڑے رکھ لوں، بارہ بجے تک سب ہی سو گئے۔ تب میں نے نہا کر کپڑے بدلے۔ بال خشک کئے پھر بیگ تیار کیا، بہت آہستہ آہستہ سارے کام کئے کہ کھٹکا نہ ہو اور نہ کسی کی آنکھ کھلے۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے بیگ اٹھا کر میں گھر سے نکل آئی۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ کھٹکا نہ ہو جائے۔ گھر کا پچھلا دروازہ جو عقبی کی طرف کھلتا تھا اس کو کھلا ہی چھوڑ دیا۔ چند قدم آگے آئی تو منیر ایک خالی مکان کی دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اور وہ بھی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آیا۔ میرا بیگ ہاتھ میں لے لیا اور تھوڑا سا چلنے کے بعد ہم گلی کے نکڑ پر پہنچے، جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا اور ہم بحفاظت محلے سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے، اب ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ رات بھر سفر کے بعد صبح 10 بجے کے قریب ہم اب لاہور پہنچ گئے ۔ کافی تھکن ہورہی تھی لہذا منیر نے گاڑی ایک ہوٹل پر کھڑی کر دی اور ہم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا تا کہ کچھ آرام کرلیں۔ منیر نے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دیا تھا۔ ہمیں ہوٹل میں کرائے کا کمرہ مل گیا۔ ہم تھکے ہوئے اور کچھ خوفزدہ بھی تھے یہاں پرسکون ماحول ملا۔ بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی، دو بجے تک بے خبر سوتے ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر کھانا منگوایا۔ کھانا کھا کر منیر لیٹ گئے تو میں نے سوال کیا کہ گھر سے تو آگئے ہیں۔ اب بتاؤ آگے کیا کرنا ہے کہا تھوڑی دیر سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے نکاح کا انتظام کیا جائے تا کہ ہمارا ساتھ جائز رہے۔ وہی تو سوچ رہا ہوں یہاں لاہور ہائی کورٹ میں میرا ایک دوست وکالت کرتا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں اس سے بات کر کے پھر تم کو آکر کورٹ لے جاؤں گا اور نکاح ہوگا۔ گواہوں کا انتظام بھی شاید وہی کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں رہائش کا سوچنا ہے نکاح کے بعد کہاں جائیں گے۔ عمر بھر تو اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہ سکیں ے۔ کوئی مکان کرایہ پر تلاش کرنا ہوگا، ابھی فورتھ ائیر کے پرچے دینے ہیں۔ یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن والدین کو جب پتہ چلے گا کہ ہم نکل آئے ہیں، وہ ہم کو تلاش کریں گے اس کا کیا ہوگا ….. اس سوال پر منیر نے متفکر ہو کر کہا ہاں یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہے، مجھ پر پولیس کیس بھی بن سکتا ہے اور وہ اغوا کا پرچہ درج کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے یقیناً ان کو پولیس گرفتار کرے گی ، مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں ہم ڈسکس کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے کہ گھر سے قدم نکالتے وقت تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا اور اب یہ باتیں سوچ رہے تھے۔ اس وقت آنکھوں پرعشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، معاشرتی حقائق اور مشکلات ذہن میں ہی نہیں آئے تھے اور یہ حقیقی عفریت منہ پھاڑے سامنے کھڑے تھے۔ منیر نے کہا میں آصف وکیل کے پاس جاتا ہوں اور کورٹ میرج کی بات کرتا ہوں، دیکھوں وہ کیا ٹائم دیتا ہے، پھر تم کو لے چلوں گا تم ہوٹل کے کمرے کو اندر سے لاک کر لینا جب تک کہ میں نہ آؤں دروازہ بجے بھی تو مت کھولنا۔ میں مینجر کو بتا دوں گا اور دو چار گھنٹے تک آجاؤں گا گھبرانا نہیں۔ یہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ کمرے میں ٹی وی رکھا تھا، اس کو آن کیا اور دل بہلانے لگی۔ شام کو منیر لوٹ آیا۔ بتایا کہ آصف مل گیا ہے۔ کل کاغذات ٹائپ ہوں گے اور گواہوں کا انتظام ہو گا، پھر تم کو لے جاؤں گا کیونکہ کورٹ میں میرا بیان بھی قلمبند ہوگا۔ اگلے روز وہ صبح ہی چلا گیا اور پھر صبح سے شام ہو گئی منیر نہ لوٹا، میرا جی گھبرا رہا تھا۔ بار بار گھڑی دیکھتی تھی لیکن وقت جیسے تھم گیا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو ایک ہولناک خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے قریب ہی خود کش دھماکا ہو گیا تھا۔ بہت سے پولیس والے اور راہگیر مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے تھے ، یہ خبر سنتے ہی کلیجہ تھام لیا کیونکہ منیر بھی تو ادھر گیا ہوا تھا۔ شام سے رات ہو گئی۔ وہ نہیں آیا۔ خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے گزاری۔ پل بھر کو آنکھ نہ لگی۔ شب بھر منیر کی خیر و سلامتی کی دعا کرتی رہی۔ رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بیرے نے ایک بار در بجایا مگر میں نے کھولا اور نہ جواب دیا تو وہ لوٹ گیا۔ صبح ہوئی اور منیر نہیں آیا تو میں سمجھ گئی کہ کچھ ہو چکا ہے۔ دوپہر کو منیجر نے فون کیا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ریسیور اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ منیر صاحب شدید زخمی تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔ اسپتال میں ان کو ہوش نہیں آسکا وہ چل بسے ہیں اور ان کی جیب سے ہمارے ہوٹل کا کارڈ ملا تو اسپتال والوں نے فون کیا ہے۔ آپ ان کے گھر والوں کا پتہ دیں۔ میں نے منیر کے والد کا نمبر لکھوادیا اور منیجر سے کہا کہ ان کو میرا مت بتائے گا کیونکہ ہم گھر والوں سے چوری چھپے نکلے تھے اور وہ کورٹ میں کورٹ میرج کے سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست سے ملنے گئے تھے- بدنصیبی سے سانحے کی زد میں آگئے۔ ایسا کہتے ہوئے میں رورہی تھی ۔ تب منیجر نے کہا گھبراؤ نہیں مجھ کو اپنا بھائی سمجھو اور جہاں کہو میں پہنچانے کا انتظام کر دیتا ہوں، البتہ سامان آپ ۔ ساتھ نہیں لے جاسکتیں یہ ہمیں منیر صاحب کے وارثوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں سوچ کر بتاتی ہوں۔ میجر پر مجھے اعتبار نہ تھا، یقینا وہ مجھ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ وہ محض مجھ کوتسلی دے رہا ہے تب ہی میں نے اپنی دانست میں چالاکی سے کام لیا۔ بیرے کو بلا کر دو ہزار روپے دیئے اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو۔ کسی طرح مجھے یہاں سے نکالو لیکن اس طرح کے منیجر کو خبر نہ ہو بیرے نے کہا دو ہزار نہیں اگر پانچ ہزار دو گی تو تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی، ورنہ پولیس ابھی یہاں پہنچ جائے گی یہ دشوار کام ہے۔ میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس وقت میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ گھر والوں سے خوفزدہ تھی کہ کچھ نہ سوچا اوپر سے پولیس کا ڈر تھا کہ منیجر ضرور کوئی ایسی کارروائی کرنے میں لگا ہے کہ چند لمحوں بعد میں گرفت میں آجاؤں گی۔ حالانکہ بم دھماکے میں جاں بحق ہونا منیر کے لئے تو ایک حادثاتی سانحہ تھا مگر میرا اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آنا جرم ہی گردانا جاتا۔ پس میں نے پانچ ہزار بیرے کو دیئے اور اس نے مجھ کو ہوٹل سے باہر جانے کا دوسرا راستہ دکھا دیا۔ جب میں پہلی سیڑھی سے باہر آئی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہاں ٹیکسی کھڑی تھی بیرے نے مجھ کو اس میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے کہا کہ یہ تم کو میرے گھر لے جائے گی ، وہاں جا کر آرام سے بیٹھ جانا اور میں ڈیوٹی ختم کر کے آجاؤں گا، پھر تم جہاں کہو گی تم کو پہنچا دوں گا۔ منیر کا سامان میں نے ہوٹل میں رہنے دیا تھا۔ صرف اپنا بیگ جس میں میرے کپڑے نقدی اور کچھ زیورات تھے ساتھ لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بیرے کے گھر کے دروازے پر اتارا شاید وہ اس کو جانتا تھا۔ بیرے کا نام افتخار تھا اور یہ ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ ہوٹل میں جو مرد عیاشی کے لئے آکر ٹھہرتے تھے یہ ان کو غلط قسم کی تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ تھا لہذا اس کا رابطہ اس بازار سے بھی رہتا تھا۔ افتخار رات کو آ گیا۔ اس کے گھر میں خواتین نہیں تھیں اکیلا ہی رہتا تھا۔ آتے ہی اس نے ایک عورت کو فون کیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت آئی دونوں نے کچھ دیر تک دوسرے کمرے میں گفت و شنید کی پھر بولا بشری بی بی یہ میری خالہ ہیں، قریب ہی رہتی ہیں تم ان کے گھر چلی جاؤ کیونکہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تم کو کل یہاں پہنچا دیں گی۔ چاہو تو اپنا سامان رہنے دو یا ساتھ لے جاؤ خالہ نے کہا ان کا سامان یہیں رہنے دو کل میں منگوالوں گی ، ابھی رات ہو رہی ہے اور ہم دونوں عور تیں ٹیکسی میں جائیں گی سامان لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیگ میں زیور وغیرہ یا کوئی قیمتی سامان بھی ہو۔ میں منیر کی ہلاکت کے صدمے سے نیم جان تھی- اوپر سے خالہ کی ہمدردانہ باتیں اور بار بار گلے لگا کر کہتی تھیں مت رو میری بچی رونا نہیں۔ مجھے ماں سمجھو۔ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا ۔ بھروسہ رکھو۔ کل تک تجھے تیرے گھر پہنچا دوں گی۔ اس شاطر عورت نے میرا سامان افتخار کے حوالے کیا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر اس جگہ لے آئی جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، میں جب یہاں آئی اور ماحول کا اندازہ ہوا تو ہکا بکا رہ گئی۔ منیر کے مرنے کا غم بھی بھول گئی ، سامنے اپنی عزت کی موت نظر آرہی تھی، اس جگہ آنے سے تو مر جانا کیا برا تھا، کاش میں منیر کے ساتھ ہی بم دھماکے میں اڑ جاتی۔ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ۔ عورت کے کوٹھے پر لوگ آگئے تھے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں کہ ان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ میرا کزن منصب خان بھی تھا۔ منصب کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ رویؤں یا ہنسوں۔ میں ہمت کر کے پردہ ہٹا کر اس کی طرف دوڑی اور اس کے پاس جا کر رونے لگی وہ بھی مجھے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا تو میں نے کہا۔ منصب میں رستہ بھول گئی تھی اور یہ لوگ دھوکے سے یہاں لائے ہیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے لے چلو۔ کب لائے تھے یہ تم کو ؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے، میں نے جواب دیا۔ اچھا فکر نہ کرو اس نے اپنے پولیس آفیسر دوست سے کچھ کہا اور اس نے بالا خانے کی مالکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میں نے دیکھا عورت خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے ہاتھ باندھے اور پھر منصب سے کہا کہ بے شک اس کو لے جاؤ کیونکہ ابھی میں نے اس کے پیسے نہیں دیئے، اصل مجرم ہوٹل کا بیرا افتخار ہے، اس کا سامان بھی اسی کے پاس ہے، وہی اسے فروخت کرنے لایا تھا۔ منصب میری سوتیلی والدہ کا بھانجا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے آیا اور اپنے دوست پولیس والے سے کہا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے، اس لئے بات نہیں نکلنی چاہئے ، ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی ۔ غلطی سے ان بد معاشوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شکر ہے ہم یہاں بر وقت آگئے۔ بہر حال میں صبح ہی اس کو گھر لے جاؤں گا تم افتخار سے اس کا بیگ برآمد کراؤ جس میں اس کا شناختی کارڈ، زیور اور نقد رقم ہے۔ وہ رات میں نے منصب کے ساتھ گزاری۔ گرچہ میرا دل منیر کے لئے دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر میں نے منصب پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ مجھ کو منیر کا دکھ ہے اور میں اس کے لئے رورہی ہوں۔ گناہ منیر نے میرے ساتھ نہیں کیا کیونکہ وہ نکاح کے بعد جائز رشتے سے ملنا چاہتا تھا ، تا کہ خدا ہم سے خوش ہو مگر موت نے اس کو مہلت نہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو گناہ سے بچا لیا۔ وہ ایک سچا انسان تھا مگر منصب میں خود پر قابو پانے کا حوصلہ نہ تھا، اس لئے مجھے اس بازار کی گندگی بننے سے تو بچا لیا تھا مگر خود اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، جب میں زار و قطار روئی تو وہ شرمندہ ہوا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے سے شادی کرے گا اور معافی بھی مانگی مگر اب کیا فائدہ تھا لوٹ لینے کے بعد کوئی معافی مانگے تو دامن تار تار ہی رہتا ہے۔ اگلے دن منصب مجھے گھر لے آیا اور میرے والدین کو سمجھایا کہ اس کو کچھ مت کہنا جوغلطی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیجئے اور شکر کیجئے کہ اس کی عزت اس بازار میں نیلام ہونے سے بچ گئی ، اس روز اگر میں اپنے اس پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں نہ جاتا تو نجانے اس پر کیا قیامت گزر جاتی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا وہاں جانا آپ کی عزت کے تحفظ کا سبب بن گیا اور شاید منیر کی موت بھی اسی طرح لکھی تھی کہ وہ بھیانک حادثے میں اس طرح دنیا سے چلا گیا۔ یہ حقیقت تو بہرحال سب کو پتہ چل چکی تھی کہ میں منیر کے ساتھ بھاگی تھی مگر موت اس کو لے جا چکی تھی لہذا کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ منصب کے سمجھانے پر امی ابو خاموش ہو گئے ۔ اگرچہ مجھ سے ناراض بہت تھے اور بات بھی نہ کرتے تھے مگر مار پیٹ سے کام نہیں لیا کہ اس میں ان کی بدنامی تھی ، پھر منصب نے ابو کو یقین دلا دیا تھا کہ فکر مت کریں، میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ اب کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرے اور نہ گھر سے بھاگنے کا طعنہ دے۔ منصب ہر دوسرے تیسرے دن مجھے فون کرتا تھا اور میری خیریت دریافت کرتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی فون کرتی کہ میری اندھیری زندگی کی اب وہ ایک ہی اس تھا۔ ایک روز اس کا فون نہ آیا اور میں نے بھی فون نہیں کیا تو اگلے دن اس نے فون کر کے کہا کہ بشری رات تم نے بھی فون نہیں کیا کیوں؟ میں انتظار کرتا رہا۔ مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے بہانہ کیا۔ تم کو پتا ہے جس رات میں تم سے بات نہیں کرتا ہے کہ اس شب یہ کالی رین گزرنے کا نام نہیں لیتی اور تم ہو کہ بات نہیں سمجھتیں ، میں سمجھتیں ہوں مگر مجبوری ہے۔ اچھا میں تمہارے شہر آرہا ہوں ، صرف تم کو دیکھنے چھپ نہ جانا۔ سامنے ضرور آنا اچھا کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ دل گھبرانے لگا – بے شک منصب کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ اس کی منگنی اس کے ماموں کی بیٹی آسیہ سے ہو چکی ہے اور مجھے سے شادی کرنے کے لئے اس کو اس رشتے سے بغاوت کرنی پڑے گی جو میری امی کو کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ منصب گھر آتا تو بھی امی کے سامنے ہم بات نہ کرتے کہ ماں اپنے بھانجے کا مجھ سے گھلنا ملنا سخت نا پسند کرتیں ، تاہم فون پر اس نے کہا کہ صرف تم سے ملنے آرہا ہوں۔ وہ یہاں اپنے گھر والوں سے ملنے آ رہا تھا، پھر اس نے مجھ سے ملنے آنا تھا مگر گھر پر بات نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے یہاں آکر فون کیا کہ پھر تم فرح کے گھر آجاؤ وہاں بات کر لیتے ہیں۔ فرح اس کے چچا کی بیٹی تھی اور ان کا گھر قریب ہی تھا۔ مجبوراً میں نے امی سے کہا کہ فرح بیمار ہے، کیا میں پوچھنے چلی جاؤں وہ بولیں ہرگز نہیں۔ شام ہونے والی ہے یہ کون سا وقت ہے فرح کے ہاں جانے کا تمہارے ابا ناراض ہوں گے۔ میری بہن نے طرفداری کی ۔ امی جانے دونا بھیا چھوڑ آئے گا۔ ہر گز نہیں۔ آج کل جوان لڑکی کو بھیجنے کا زمانہ نہیں لوگ پہلے ہی کیا کم باتیں بناتے ہیں۔ اتنے میں فرح کے گھر سے اس کا چھوٹا بھائی آگیا کہ فرح باجی کو اسپتال لے جارہے ہیں ، تب امی کا دل پسیجا، بولیں تم لوگ گھر پر رہو۔ میں خود جاتی ہوں وہاں۔ اسی دم وہ فرح کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے کی دیر تھی کہ منصب گھر آگیا، دراصل اس نے فرح کے بھائی کو بھیجا تھا۔ امی گھر پر نہ تھیں ۔ اب ہم بات کر سکتے تھے، تب اس نے کہا بشری ۔ تم ماں کو راضی کر لو کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ میری ماں آسیہ کے علاوہ کسی کو بہو نہ بنائیں گی وہ ضد کی پکی ہیں۔ یہ ناممکن ہے تمہاری خالہ میری سگی ماں نہیں ہے، تم جانتے ہو تم ان کو راضی کر سکتے ہو تو کوشش کر کے دیکھو میں ان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ۔ اچھا بتاؤ اگر ہماری شادی پر کوئی راضی نہ ہو تو کیا تم مجھ سے کورٹ میرج کر لو گی ۔ اس کی بات سن کر مجھ کو ٹھنڈا پسینہ آگیا کیا کہہ رہے ہو۔ منصب ایک بار پہلے بھی میں اس راہ گزر چکی ہوں اور رستہ بھول چکی ہوں تم نہ ملتے تو تباہی میرا مقدر تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہوگا، میں جو تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم خود اپنے اور میرے گھر والوں سے بات کرو گے منصب، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی … کوشش تو کرو اس نے کہا آگے مقدر کی بات ہے لیکن کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہاں اگر تم میرے والد صاحب کو راضی کر لو تب شاید یہ ممکن ہو جائے۔ منصب نے گھر جا کر اپنی والدہ سے بات کی۔ اس کی ماں نے میری ماں سے کہا امی نے اس وقت مجھ پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ کہ کیا تجھے اسی ان کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اب جو تیری خالہ کہہ رہی تھی مجھے تو سن کر شرم آرہی تھی تو مر کیوں نہ گئی بے حیا ، پہلے ایک کے ساتھ بھاگی، اب دوسرے کے ساتھ دوستی کرلی ہے۔ منصب میرا خون ہے۔ کیا وہ تھوکا چاٹے گا؟ تم نے ڈورے ڈالے بھی تو کس پر؟ میرے بھائی کی بیٹی آسیہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے بے غیرت ۔ تو نے ہمیں ڈس لیا ہے، ہم تو برباد ہو گئے ہیں۔ اگلے دن خالہ آگئیں بولیں میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ بشری کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گا۔ جان دے دے گا ۔ کیسی بے حیا ہے تمہاری لڑکی کہ میرا بیٹا اپنے منہ سے نام لے رہا ہے۔ میں رونے لگئی امی ان کی باتیں مت سنیں، ان کا بیٹا خود میرے پاس آیا تھا۔ میں نہیں گئی تھی ان کے بیٹے کے پاس. بکواس بند کر بے حیا کچھ شرم کر لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے جو گھر سے بھاگ چکی ہوں ۔ اس نے تم سے شادی کر بھی لی تو کچھ دن بعد چھوڑ دے گا۔ وہ ہمارا خون ہے، میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ امی نے مجھ کو اتنی سنائیں کہ میں خون کے آنسو رونے لگی۔ آخر کار کمرے میں بند ہوئی ۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔ منصب کا فون تھا۔ اس نے کہا سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا، ہمارے بزرگ یوں ماننے والے نہیں ہیں۔ میں کسی قیمت آسیہ سے شادی نہیں کروں گا اور تم اپنی عصمت کا گوہر میرے حوالے کر چکی ہو تو بہتر ہے کہ شادی بھی مجھ سے کر لو۔ کیسے کروں کوئی مانتا نہیں روتے ہوئے میں نے کہا- ایسے ہی جیسے منیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے چلی گئی تھی- میرے لئے کیا گھر کی دہلیز پار نہیں کر سکتیں جبکہ میں نے تمہارے ماضی کو ایشو نہیں بنایا ہے۔ تم کو واپس گھر پہنچایا ہے۔ کیا اب بھی میری محبت کا اعتبار نہیں ہے؟ ہمت کرو اور نکلو گھر سے ، ہم کراچی جا کر کورٹ میرج کر لیں گے۔ غرض وہ مجھے اکساتا رہا اور مجھے ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں ، تب بن سوچے سمجھے میں نے کہہ دیا کہ میں آجاؤں کی جگہ بتا دو۔ اس نے وقت اور جگہ بتا دی اور کہا کہ میں لینے آجاؤں گا گھبرانا نہیں آسیہ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے- میرے دل میں بھی سوتیلی ماں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے بہت ستایا اور رلایا تھا ، بہت گندی گندی گالیوں سے نوازا تھا۔ بے عزتی اور اہانت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔ رات کو میں نکل گئی ، گرچہ ضمیر ملامت کرتا رہا سارا دن یہی سوچتی جاتی تھی کہ جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے۔ جب گاڑی کراچی کے اسٹیشن پر رکی میں نے ادھر ادھر دیکھا منصب مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ دو گھنٹے میں پلیٹ فارم پر کھڑی اس کی راہ تکتی رہی ادھر اُدھر ٹہلتی رہی۔ دو نوجوان کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے قریب آگئے اور آنکھ مار کر بولے ہمارے ساتھ چلو گی میں گھبرا گئی۔ پسینے پسینے ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگے کہ یار وہ نہیں آیا جس کے لئے یہ بھاگ کر آئی ہے، ایسا ہی لگتا دوسرے نے کہا تو چلے گی ہمارے ساتھ ہاہاہا ان کے قہقہے میرا پیچھا کرنے لگے۔ شام ہونے والی تھی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے سوچا شاید اب وہ نہیں آئے گا۔ زمانے کی تو عادت ہے دھوکا دینے کی۔ پھر بھی دل یہی کہتا تھا۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اگر منصب نہیں آیا تو مجھے واپس جانا پڑے گا مگر میں کس منہ سے گھر والوں کا سامنا کروں گی، خاص طور پر اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جنہوں نے پہلی غلطی پر مجھے معاف کر دیا تھا۔ حالانکہ ان کی عزت نیلام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عقب میں قدموں کی آہٹ ہوئی۔ ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا تو میری سانس رک گئی منصب تھا مگر ساتھ ابو بھی تھے ابو کو دیکھ کر جان نکل گئی۔ اب ابو اور منصب آگے آگے تھے اور میں ایک مردہ لاش کی طرح ان پیچھے پیچھے چل رہی تھی، آخر ہم ایک ہوٹل آگئے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر ابو اور منصب چلے گئے ۔ نکاح کا انتظام کرنے کے لئے ۔ اگلے دن میرا نکاح تھا ابو نے خود میرا نکاح منصب سے کرایا اور مجھے اس کے حوالے کر کے خود گھر واپس چلے گئے۔ انہوں نے گھرجا کر امی کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ جانتے تھے کہ امی نہ صرف ہنگامہ برپا کر دیں گی بلکہ ابو سے اس عمر میں طلاق مانگ لیں گی کہ میں نے ان کی بھابھی کے ہونے والے سرتاج کو اپنے سر پر سجا لیا تھا۔ کافی دن بعد ایک روز دروازہ بجا۔ میں نے کھولا سامنے بھائی کھڑا تھا مجھے دھکا دیا۔ میں گرتے کرتے بچی۔ منصب نے سنبھال لیا۔ بھائی چلا رہا تھا کہ میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گا، تیری لاش لے کر جاؤں گا۔ منصب نے اس کو روکنا چاہا۔ سمجھانا چاہا مگر وہ نہ رکا ۔ تب منصب نے میرے بھائی کو بتا دیا کہ اس کا اور میرا بندھن آپ کے والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور تصویر اس کو دکھا دی، جس میں میرا اور منصب کا نکاح ہو رہا تھا اور ابو بھی اس تصویر میں موجود تھے۔ بھائی کا غصہ تھم گیا۔ منصب نے کہا۔ یہ سب تمہارے والد صاحب کی منصوبہ بندی سے ہوا ہے، کیونکہ تمہاری والدہ کسی صورت نہ مانتی تھیں تو ایسا کرنا پڑا- بھائی خاموش ہو کر لوٹ گیا لیکن پھر کبھی میرے دروازے پر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ابو فوت ہو گئے ۔ امی کو اصل حقیقیت پتہ چل چکی ہے۔ میں شب و روز ان کا انتظار کرتی ہوں لیکن وہ نہیں آتیں شاید انہوں نے میری صورت نہ دیکھنے کی قسم کھالی ہے۔

Rumi Quotes in Urdu

0

Rumi Quotes in Urdu

Rumi quotes are in many languages including English, Spanish, French, and Urdu.

English: “You are the sky and earth to me.”

Spanish: “Puedo estar sin ti pero no soportar la vida.”

French: “Je suis tout ce que tu n’es pas.”

Urdu: “Mujhe tumhare bina nahi chahta.”

Rumi, a 13th-century Persian poet and Sufi mystic, is celebrated for his profound wisdom on love, spirituality, and the human soul. His quotes have transcended time and culture, captivating readers worldwide, including those who speak Urdu. Translating Rumi’s quotes into Urdu enriches their meaning, as the language’s poetic beauty amplifies the mysticism in his words. His quotes about divine love, self-discovery, and inner peace resonate deeply with modern readers, offering timeless insights into life’s complexities.

We have collection of Love QuotesMotivation Quotes and many other like life quotes on this blog Q4Quotes so visit us regular

Following are the best Rumi Quotes in Urdu

کرامت ہمارے اندر ہے ہم باہر تلاش کرتے ہیں۔

جیسے پانی چاند اور ستاروں کی عکاسی کرتا ہے جسم دماغ اور روح کی عکاسی کرتا ہے۔

اچھی صورت دل کو متاثر کرتی ہے جب کہ اچھی سیرت روح کو

میں نے اللہ سے کہا!
میں تمہیں جاننے سے پہلے نہیں مرنا چاہتا
اللہ نے جواب دیا ، جو مجھے جان گیا وہ کبھی نہیں مرتا۔

آپ کے دل میں ایک موم بتی ہے ، جلنے کے لیے تیار ہے

 آپ کی روح میں ایک باطل ہے، بھرنے کے لیے تیار ہے

 آپ کو محسوس ہوتا ہے، آپ نہیں جانتے ؟

پرہیز یقیناً دوا کی جڑ ہے پرہیز کر پھر اپنی روح کی طاقت دیکھ۔

وسوسوں سے پرہیز کر اس لیے کہ اِن جھاڑیوں میں شیر چھپے ہیں۔

علی انگوٹھا

0

علی انگوٹھا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔

بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا

ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،

 ‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین  ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’

لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔

ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔

وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔

علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں  پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔

گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔

مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔

وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔

درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔

علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔

ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں  تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔


اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟

‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’

علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔

بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔

ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔

والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’

‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔

نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔

علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔

بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔

پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔

بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے،  بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔

تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔

اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔

‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’

کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔

پھر آواز آئی، اس بار  پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ  لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’

چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔

اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔

اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔

اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔

‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’

اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔

‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔

مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔

صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔


ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔

اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔

‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔

لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں  کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔

‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں۔

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

0

ہندو عورت کا سورۂ فاتحہ پر یقین کا واقعہ

 

عرب کے قبیلے میں ایک غیر مسلم شادی شدہ عورت رہا کرتی تھی۔ اس کا شوہر بہت بڑا بزنس مین تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سنا کہ ملک عرب یعنی مکہ میں اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے محبوب نبی ہیں۔

ان پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام ہے “سورۃ الفاتحہ”۔ جس میں ہر بیماری سے شفا موجود ہے۔ وہ جس پر بھی دم کی جاتی ہے یا پڑھ کر پھونکی جاتی ہے۔ وہ انسان اچھا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں بے شمار برکات ہے۔

اس میں اب عقیدے کی بات ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم اللہ پاک جس کے دل میں ایمان کی روشنی ڈالنا چاہے۔ اللہ کی قدرت کا تو آپ سب کو اندازہ ہو گا۔

اب کسی شخص سے اس عورت نے سورۃ فاتحہ سیکھ لی۔ پھر جب اس نے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھا۔ تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جب بھی یہ سورۃ پڑھتی تھی۔ اللہ تعالی اس کے بگڑے کاموں کو سنوار دیتا۔

ایک دن اس کے بیٹے کو ایک خطرناک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ بڑے بڑے حکیموں، طبیبوں کو بلوایا گیا۔ سب نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اس بچھو کا زہر بہت خطرناک ہے۔ اس بچے کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہارا یہ بچہ بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔

ماں کا رو رو کر برا حال تھا اور شوہر اپنے خداؤں کی عبادت کر رہا تھا۔ ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ پھر جب کوئی حل نہیں نکلا۔ تو اس عورت کو یاد آیا کہ سورۃ فاتحہ کے بارے میں اس نے پڑھا ہے کہ اس میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اسے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کروں۔ تو کیا میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالی نے اس عورت کو ایمان کی طرف لانا تھا۔ اس کے دل میں اسلام کی محبت مزید پیدا کرنی تھی۔ تو اس کی زبان میں تاثیر دے دی۔

جب اس نے اس سورۃ کو پڑھ کر اس جگہ پر دم کیا جہاں بچھو نے کاٹا تھا۔ تو اس کا لڑکا اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب اس نے سورۃ فاتحہ کو پانی پر دم کر کے پلایا۔ تو وہ اٹھ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے کسی بچھو نے کبھی کاٹا ہی نہیں تھا۔

اس کا شوہر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کسی طبیب نے اور کسی حکیم نے اسے ٹھیک نہیں کیا۔ تو تم نے ایسا کیا عمل کیا۔ جو یہ بچہ ٹھیک ہوگیا۔ اس نے کہا کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک سورۂ ہے۔ جو ہر بیماری کو ٹھیک کر دیتی ہے۔ بس وہ مجھے یاد تھی۔ میں نے پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا اور اس کا پانی پلایا۔

تو دیکھو کیسے ٹھیک ہوگیا ہمارا بچہ۔ اس کا شوہر بجاۓ خوش ہونے کے اس سے ناراض ہوگیا کہ یہ تم کیا جادو ٹونے کر رہی ہو۔ اس کی بیوی کہنے لگی زندہ صحیح سلامت ہے ہمارا بچہ ورنہ ہم سے بچھڑنے والا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا۔ کیونکہ اسے اسلام سے نفرت تھی۔

جب اس کی بیوی یہی عمل کرنے لگی۔ تو اس کو اپنی بیوی سے بھی نفرت ہو گئی۔ اب اس نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیا۔ ہر روز اس کو مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اب میں نے تیرے منہ سے یہ سورۂ سنی۔ تو یاد رکھنا تیری کھال کھینچ لوں گا۔ اس کو اللہ کے کلام پر بالکل یقین نہیں تھا۔ جبکہ اس کی بیوی کو اللہ کے کلام پر یقین ہو گیا۔

اب اس عورت کو اللہ تعالی نے کس طرح مدد کی یہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ اس عورت کا شوہر جب گھر سے کام کرنے کے لیے نکلا۔ نکلتے وقت جب اس نے اپنا جوتا پہنا تو اس میں وہی بچھو مجود تھا۔ جس نے اس کے بیٹے کو کاٹا تھا۔ اس کے ڈنگ سے وہ بچہ تو بچ گیا۔ مگر خود نہ بچ سکا۔

کیونکہ جب بچھو نے اس کو کاٹا تو زہر پورے جسم میں پھیل گیا۔ اور تڑپ تڑپ کے وہیں دم توڑ گیا۔ خاندان میں یہ خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اب شوہر دنیا سے جا چکا تھا۔

شوہر کے مرتے ہی اس کے گھر میں تو نوبت فاقوں تک آ گئی۔ وہ عورت قرض دار ہو کر رہ گئی۔ وہ بہت پریشان تھی۔ دل میں پھر وہی بات آئی کہ میں سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی ہوں۔ کیا پتا میری پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔

پھر وہ زور زور سے سورۃ فاتحہ پڑھنے لگی۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے سورۃ فاتحہ کا ورد کرتی رہی اور اتنے اعتماد اور یقین سے پڑھتی رہی۔ جس کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔

جب کوئی بندہ اللہ تعالی سے امید لگاتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ سات دن کے اندر اندر اس کو خوشخبری مل گئی کہ اس کے کاروبار کو سنبھالنے کے لیے اس کے شوہر کا دوست آ گیا ہے۔

جب دوست کو خبر ملی کہ دوست کی بیوہ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ تو وہ اس کی بیوہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ فکر نہ کریں۔ وہ میرے بھائی کی طرح تھا۔ میں آپ کی مدد کروں گا اور جو بھی پریشانیاں ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی۔

پھر اس شخص نے اس عورت کا سہارا بن کر اس کا پورا کاروبار سنبھال لیا۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے زندگی پہلے تھی ویسے ہی ہو گئی۔ اس کے شوہر کے دوست نے اس عورت کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے سن لیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔

کیا یہ کوئی منتر ہے؟ جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے بھی سکھائیے! اس پر وہ عورت کہنے لگی یہ کوئی منتر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید جو ان کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔ یہ اس میں سے ایک سورت ہے۔ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔

پھر کہنے لگی مجھے تو اس پر بہت یقین ہے۔ میں نے کسی سے یہ سورہ فاتحہ سیکھ لی تھی اور اب میں چلتے پھرتے یہ سورت پڑھتی رہتی ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی۔ اگر اتنا ہی اس سورت کو مانتی ہے۔

وہ مزید کہنے لگا کہ ایک سورت کی اتنی تاثیر ہے۔ تو پورے قرآن کی کتنی تاثیر ہوگی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ میں مسلمان تو ہو جاؤں۔ لیکن میرا شوہر نہیں مانتا تھا۔

اس شخص نے کہا کہ اب تو آپ کا شوہر بھی نہیں ہے اور ایک سورت کے ساتھ آپ کی محبت دیکھ کر میں اتنا زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں قرآن مجید سیکھیں گے اور ضرور پڑھیں گے۔ وہ کہنے لگی جی! آپ نے بالکل صحیح کہا اور یوں وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔