Home Blog Page 2

Brother Quotes in Urdu to share your love

0

Brother Quotes in Urdu

Here is a collection of Brother Quotes in Urdu that you may use to express your best wishes to him and incorporate into your status. Brothers are said to be each other’s biggest supports. They are the true source of strength not only for the younger members of the family but for the entire family as a whole. However, younger people will always be adored, and older people will almost always be respected. Love is undeniably present in these kinds of relationships due to the fact that it is both the source of their sustenance and the source of their beauty.

You can make your brother happy by downloading Brother Quotes in Urdu and share with them to him.

Below are the best brother quotes in Urdu

بڑا بھائی ہمارا پہلا دوست اور دوسرا باپ ہوتا ہے ۔

بھائی ایک ایسا شخص ہے جوضرورت کے وقت ہمیشہ آپ کے پاس ہوتا ہے ۔ آپ کو کبھی گرنے نہیں دیتا

بہترین بھائی وہی ہے جس کے جانے کے بعد آپ زندہ رہنا نہیں چاہتے ۔

بھائی کے جیسا پیار نہ ہم کسی کو کر سکتے ہیں نہ کوئی ہمیں کر سکتا ہے

بھائی پریشانی کے وقت میں ہمت اور مصیبت کے وقت میں ساتھ دینے والے ہوتے ہیں ۔

بغیر مقصد کے جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے آپکا اپنا بھائی ہوتا ہے ۔

بہترین بھائی وہ ہے جو بھائی کو ایمانداری سے سچ بولنے کا مشورہ دے اور آپ کو اچھے کام کرنے کا مشورہ دے ۔

بھائی وہ ہوتا ہے جو آپ کی حمایت اپنے دل سے کرتا ہے اور اس سے بھی بہتر ہے وہ جس کے ہوتے ہوۓ آپ کو کسی کی ضرورت نہیں رہتی ۔

10+ English Quotes For dp Stories

0

10+ English Quotes For dp Stories

Creating the perfect DP story with meaningful English quotes can express your emotions, inspire others, or reflect your mood. Here are 10+ quotes that are ideal for such stories. From motivational quotes like, “Dream big, work hard, stay focused,” to uplifting ones like, Happiness is not by chance, but by choice, “these short and impactful phrases are perfect for sharing on social media.

قبر کی پہلی رات\Islamic information

0

قبر کی پہلی رات

قبر کی پہلی رات کا منظر کیسا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تلاش میں ہر دوسرا شخص نظر آتا ہے آج ہم اس سوال کا جواب آپ کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لے کر حاضر ہوۓ ہیں اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ آخر قبر انسان کو کیسے پکارتی ہے؟ کیا یہ پکار انسان کو سنائی دیتی ہے؟

قبر کی پکار
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ قبر ہر دن اپنے مردوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے۔ میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔

جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے۔ تو قبر اسے مرحبا کہتے ہوئے خوشخبری سناتی ہے کہ میری پشت پر چلنے والوں میں تو بڑا محبوب تھا۔ آج میں تیری ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا۔ تو اب میرے احسان کو دیکھ لے گا یہ کہہ کر قبر تا حد نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ اور جنت کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی تازہ ہوا آتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ پھر فرمایا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: یہ قبر ہر دن باآواز بلند کہتی ہے۔ اے آدم کی اولاد! تو کیوں مجھے بھول گیا؟

کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں تنہائی کا گھر، غربت کا گھر وحشت کا گھر، کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔ میں بہت تنگ گھر ہوں۔ مگر اللہ جس کے لیے کشادگی کا حکم فرمائے گا اس کے لیے کشادہ ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قبر! تو یا تو جنت کا چمن ہے یا پھر آگ کا ایک تنور۔

حضرت ابو حجاج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے۔ تو قبر اس کو کہتی ہے اے ابن آدم تو ہلاک ہوا تجھے کس چیز نے مجھ سے دھوکے میں رکھا۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں فتنہ، تاریکی اور کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔

تجھے کس چیز نے مجھ سے بہکا کر نڈر کر دیا اور تو میری پشت پر خوب اکڑ کر چلتا تھا۔ اگر وہ (مردہ) نیک ہوتا ہے۔ تو اس کی طرف سے قبر کو جواب دینے والے جواب دیتے ہیں۔ اے قبر تو دیکھ تو سہی اس کے اعمال کیسے ہیں۔ یہ اچھائی اختیار کرتا تھا اور برائی سے باز رہتا تھا۔

یہ سن کر قبر کہتی ہے بے شک یہ نیک تھا اب میں اس کے لیے سرسبز ہو جاتی ہوں۔ مردے کا جسم اس وقت منور ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالی کی طرف بھیج دی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ قبر میں بیٹھتا ہے اور ان لوگوں کے پیروں کی آواز بھی سنتا ہے۔ جو اس کے جنازے کے ساتھ قبر تک گئے ہوں۔

مردے سے اس کی قبر کہتی ہے اے ابن آدم تیری ہلاکت ہو۔ تو نے میری تنگی، بدبو اور کیڑے مکوڑوں کا خوف نہیں کیا۔ اس لیے تو نے ان چیزوں سے بچنے کے لیے تیاری نہ کی۔ بد اعمال مردے سے قبر کہتی ہے تجھے میری تاریکی میری وحشت میری تنہائی اور تنگی اور میرا غم یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد قبر اس کو جکڑ دیتی ہے۔ جس کے بعد اس کی پسلیوں کی ہڈیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔

جبکہ نیک بندے کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کے دائیں ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی ہوا آتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ اور ہم کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Jumma Mubarak Quotes In Urdu

0

جمعہ مبارک

Jumma Mubarak is an expression that Muslims use to welcome each other on Fridays, the day of congregational petition. It signifies “Favored Friday” and it is an approach to offering thanks and delight for the sacrosanct day. Here are some Jumma Mubarak quotes in urdu that you can use to wish your loved ones a Jumma Mubarak

اے اللہ عزوجل آج جمعہ کا دن ہے ہماری دعائیں قبول اور مقبول فرما
ہم سب مسلمان کو حجراسود کو بوسہ دینے اور اپنے گھر کا طواف کرنے کا شرف بخش دے
آمین یا رب العالمین

آج کا دن جمعہ مبارک کا دن ہے یہ دن سب دنوں کا سردار
اور افضل دن ہے یاٰالله اس دن کے صدقے جو دنیا سے رخصت
ہوگئے اور جو دنیا سے جانے والے ہیں ان سب کی مغفرت فرما

 

اے اللہ عزوجل آج جمعہ کا دن ہے ہماری دعائیں قبول اور مقبول فرما
ہم سب مسلمان کو حجراسود کو بوسہ دینے اور اپنے گھر کا طواف کرنے کا شرف بخش دے
آمین یا رب العالمین

جمعۃ المبارک کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہیں جو کہ قبولیت
دعا کی ہوتی ہے اس لیے اپنا وقت فضول باتوں کے علاوہ دعا میں گزارا جائے

 

جمعہ کے دن کا بہترین تحفہ
دعا ہے
اپنی قیمتی دعاؤں میں سب کو یاد رکھیں
جمعہ مبارک

 

اے پرودگار آج جمعہ کا دن ہے آج کے دن پوری کائناتبنائی
اس دن کے صدقے ہمارے گناہوں کو معاف فرما آمین

 

جمعۃ المبارک کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہیں جو کہ قبولیت
دعا کی ہوتی ہے اس لیے اپنا وقت فضول باتوں کے علاوہ دعا میں گزارا جائے

 

 

جمعہ کا دن ہے
اے مالک کن فیکون
سب کی مشکلیں آسان فرما

 

 

 

Relationship Quotes in Urdu

0

Relationship Quotes in Urdu

Might you at any point perceive a solid relationship? Obviously, no couple can really realize what is happening in their relationship, yet many years of logical review into desire, love, and connections have shown us that various ways of behaving can demonstrate whether a couple is on stable ground or set out toward issues. Great associations don’t simply show up. They request devotion, adaptability, restraint, and in particular, exertion.

Following are Relationship Quotes in Urdu

اکیلے وارث ہو تم
میری بے شمار چاہتوں کے

وہ مجھے اچھا یا برا نہیں لگتا
وہ مجھے بس میرا لگتا ہے

کسی اور کو سوچنے کی گنجائش نہیں باکی
بس تم پر ہی ختم ہے یہ داستان میری

دنیا کو ہر خوشی چاہیے اور
مجھے ہر خوشی میں بس تم

دنیا کو ہر خوشی چاہیے اور
مجھے ہر خوشی میں بس تم

سرے آم مجھے یے شکایت ہے زندگی سے
کیوں ملتا نہیں مجاز میرا کسی سے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

اک وجہ یہ بھی ہے محبت کی
مجھے نفرت کا تجربہ نہیں ہے

 

کبھی کبھی پتھر کے ٹکرانے سے آتی نہیں خراش
کبھی اک ذرا سی بات سے بھی انسان بکھر جاتا ہے

مکافات عمل|Bachon Ki Sachi Kahaniyan

0
مکافات عمل

Makafat E Amal|مکافات عمل

      “اگر یہ ایمان پختہ ہو کہ اللہ کے ہر فیصلے میں ہمارے لئے بھلائی ہوتی ہے تو انسان بہت مطمئن ہو جائے”

”دروازہ کھولو شہرین۔“باہر سورج آگ برسا رہا تھا یہ ایک بڑا گھر تھا جس کے تین حصے تھے دروازے کے بیچ والی گیلری ان تینوں مکینوں کو جوڑے رکھتی تھی اس کے دونوں تایا ان دو پورشن میں رہتے تھے اور شہرین کی ماں کے حصے میں دو مرلے کا پورشن آیا تھا جو کہ ایک کمرہ ایک اسٹور اور کچن ایک شیڈ بنا کر جگہ دے دی گئی تھی۔

”شہرین میری دھی دروازہ کھول۔“اماں نے کنڈی کھڑکاتے زور سے آواز دی شہرین کا ایک بھائی چھوٹا تھا اور ایک چھوٹی بہن زرین تھی جو کہ آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی اور شہرین بی اے کی اسٹوڈنٹ تھی۔اس نے اماں کی آواز سنتے ہی بھاگ کر دروازہ کھولا باہر اماں پسینے سے بھیگی کھڑی تھی اس نے بھاگ کر روح افزاء کا شربت برف ڈال کر گلاس اماں کو پکڑایا جسے اماں نے ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔

”اُف اللہ ․․․․․․غصب خدا کا اتنی گرمی ہے باہر سمجھو جہنم آگ برسا رہی ہے۔“اماں نے شربت کے اوپر ایک گلاس ٹھنڈا پانی غٹاغٹ چڑھالیا۔”تو اماں کس نے کہا تھا کہ ابا کی پنشن آتے ہی بازار سے سودالینے چلی جاؤ تھوڑا ٹھنڈا ٹائم ہونے کا انتظار کر لیتیں ابا تو اوپر چلے گئے ۔یہ نہ سوچا کہ پیچھے ان کے بچے اور بیوی کیا کریں گی۔“شہرین نے بغیر سمجھے بولنا شروع کر دیا۔

”پتر تجھے اللہ کا واسطہ خدا کا بندہ تھا خدا نے لے لیا مجھے تو تمہاری دماغی حالت پر شبہ ہونے لگ پڑا ہے کون ہے ہمارا کرنے والا‘ایک چھوٹا بھائی جو چار سال کا ہے یا وہ تمہارے تا یا زاد جن کو کبھی فرصت نہیں ملی کہ چھوٹے چچا کی اولاد کی کوئی ضرورت ہی پوچھ لیں۔“
شہرین کے دونوں تا یازاد اظفر اور اجمل تھے بڑے تایاجن کا نام اکرام تھا وہ سرکاری نوکری پر تھے انہوں نے حصے میں جو دو مرلے ملے تھے اس میں پانچ مرلے کا ساتھ والا گھر خرید کر ملا کر بہت اچھا گھر سیٹ کر لیا تھا ان کی ایک بیٹی سارہ جو کہ بڑی مغرور نک چڑھی تھی کالج کی اسٹوڈنٹ تھی ایم اے کررہی تھی۔

اور ایک بیٹا اظفر تھا جو کہ ایک پرائیویٹ جاب کر رہا تھا اور دوسرے تا یا جن کا نام اصغر تھا ان کے دو بیٹے تھے ایک بیٹا ایف اے کرکے کویت چلا گیا اور دوسرا بیٹا اجمل تھا جو کہ میٹرک کا طالب علم تھا۔تایاکی بازار میں ایک پنساری کی دکان تھی جو کہ خوب چلتی تھی مگر شہرین کے بابا ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے ان کی ہارٹ اٹیک ہونے سے وفات ہوگئی تھی ۔

اب ان کی پنشن ان کی بیوہ کو ملتی تھی شہرین کی والدہ جیسے تیسے کھینچ کر اس پنشن سے گزر بسر کر رہی تھیں۔اماں آخر کار اٹھ کر بڑبڑاتی برآمدے میں چلی آئیں اور گھرر گھرر کی آواز سے پیڈسٹل فین چلنے لگا۔
وقت پر لگا کر اڑنے لگا وقت کا کام تو گزر ہی جانا ہے شہرین نے بی اے کر لیا اور ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کرنے لگی زرین نے میٹرک کر لیا اور کالج جانے لگی۔

اچانک ایک رات اماں کی طبیعت خراب ہو گئی شہرین نے بھاگ کرتایا اکرام کا دروازہ بجایا رات کے تین بجے انہوں نے دروازہ نہ کھولا تو شہرین بھاگ کر دوسرے تایا کے گھر گئی جو کہ نیند میں تھے اس نے زور سے دروازہ بجایا تو انہوں نے کھول دیا۔”کیا ہوا ہے اتنی رات کو اتنی زور سے دروازہ کیوں بجایا تم نے۔“وہ باہر نکلتے ہی زور سے دھاڑے۔”وہ ․․․․․․وہ اماں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔

‘شہرین نے زاروقطار روتے ہوئے کہا۔
”لوجی اچھی بھلی تندرست تمہاری ماں کو کیا ہو گیا بھائی خود تو گیا پیچھے مصیبت چھوڑ گیا ۔“وہ بڑبڑاتے ہوئے شہرین کے پیچھے گئے جب کمرے میں آئے اماں بے سدھ تھیں انہوں نے اجمل کو بلوا کر گاڑی میں لٹایا اور ہاسپٹل لے آئے۔”آپ کی اماں کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ “ڈاکٹر نے ایمرجنسی روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔

”پلیز ڈاکٹر صاحب میری اماں کو بچا لیں کچھ بھی کرکے․․․․․“شہرین کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ”انشاء اللہ․․․․․آپ دعا کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ڈاکٹر نے شہرین کو تسلی دی اس کے تایا نے اس کے سر پر ہاتھ بھی نہ پھیرا اور اجمل کو بیٹھا کر گھر چلے گئے کہ میری طبیعت خود ٹھیک نہیں ہے ۔اجمل جو کہ اب ایف اے کرکے ایک پرائیوٹ نوکری کررہا تھا وہ ان سے قدرے بہتر تھااس نے کہا۔

”شہرین آپی چچی ٹھیک ہو جائیں گی آپ خود کو سنبھالیں ورنہ زرین اور علی کا کیا ہو گا‘اگر پیسوں کی ضرورت ہے تو آپ مجھ سے لے لیں۔“ شہرین نے کہا۔”شکریہ بھائی آپ نے اتنا کہہ دیا بہت ہے ابا کی پنشن اور میری تنخواہ کے کچھ پیسے پڑے ہیں ابھی ضرورت نہیں۔“انتظار کرتے صبح ہو گئی کہ اچانک ڈاکٹر نے نکلتے ہوئے کہا۔”آپ کی امی کا آپریشن کرنا پڑے گا سرجری کرنی پڑے گی اس کے لئے دس لاکھ لگیں گے ورنہ آپ اپنی اماں کو لے جائیں ان کا دل بہت کمزور ہو چکا ہے۔

“شہرین نے گھبرا کر اجمل کی طرف دیکھا کہ دس لاکھ کہاں سے آئیں گے ان کے دو مرلے کے پورشن کو بیچ کر بھی اتنے پیسے نہیں ملیں گے اس نے اجمل سے کہا۔”مجھے گھر لے چلو․․․․․“گھر جا کر شہرین نے دونوں تایا کی منت سماجت کی کہ آپ یہ پورشن اپنے نام کروالیں اور اماں کے علاج کے لئے پیسے دے دیں۔”تم کو تو پتہ ہے کہ میرا سارا پیسہ گھر پر لگ چکا ہے ۔

“بڑے تایا نے فوری کو را جواب دیا تو چھوٹے تایا کیوں پیچھے رہتے انہوں نے کہا۔”میں نے اپنا سارا پیسہ افضل پر لگا کر اُسے کویت بھجوایا ہے ۔“شہرین کی التجا کو سب نے نظر انداز کر دیا تو شہرین نے عجیب سی نظروں سے ان کو دیکھ کر اجمل کے ساتھ ہاسپٹل چلی آئی۔”میرے ذہن میں ایک خیال آرہا ہے کیوں نہ بھائی افضل سے رابطہ کرکے بات کروں‘اب تو انہوں نے کافی پیسہ کمالیا ہو گا۔

“اجمل نے کچھ سوچتے ہوئے شہرین سے کہا۔”جب کوئی کام نہ آیا تو وہ کیا کام آئیں گے۔“شہرین نے بے اعتباری سے کہا لیکن اجمل نے افضل سے رابطہ کرکے ساری بات بتائی۔”مبارک ہو شہرین آپی افضل بھائی پیسے بھیج رہے ہیں‘کل تک پہنچ جائیں گے۔“اجمل نے کہا۔”کیا ‘کیا کہہ رہے ہو تم؟“شہرین آنسو پیتے ہوئے حیرانگی سے بولی۔”ڈاکٹر صاحب میری اماں کا آپریشن شروع کردیں ایڈوانس میں دو لاکھ جمع کروا رہی ہوں باقی انشاء اللہ کل تک دے دوں گی۔

“اماں کا آپریشن ٹھیک ہو گیا اماں اب ہوش میں تھیں۔”میرے علاج کے پیسے کس نے دیے؟“اماں نے شہرین سے پوچھا جوکہ اماں کے ہوش میں آنے کا سن کر کمرے میں آئی تھی ۔”اماں دیکھا خدا نے کیسے مدد کی آپ کی،افضل بھائی نے پیسے بھیجے ہیں۔“شہرین نے اماں کو جواب دیا اماں نے افضل کو دعائیں دینا شروع کردیں اگلے دن اماں کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا ۔

جب وہ گھر آئیں تو سب سے خوشدلی سے ملیں۔اجمل اور شہرین نے پیسوں کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔ایک رات زورسے چیخوں کی پکار سے شہرین اور اماں کی آنکھ کھلی تو وہ بھاگ کر باہر آئیں کیا دیکھتی ہیں کہ تایا اکرام کے گھر کو رات آگ لگ گئی بجلی کے تاروں کے سرکٹ ے پورا گھر جل کر راکھ ہو گیا مگر شکر ہے کہ تایا ‘تائی اور سارہ کی جان بچ گئی ۔تایا کے دونوں ہاتھ جھلس گئے تھے ان کو شہرین کی اماں اپنے پورشن میں لے آئیں۔

”جب تک گھر دوبارہ نہیں بن جاتا آپ ادھر رہیں۔“
”مجھے معاف کر دو سکینہ میں دن رات حسد کی آگ میں جلتا رہا تمہاری کوئی مدد نہیں کی تو خدا نے میرے ساتھ کیا کیا۔“بڑے تایا معافیاں مانگنے لگے۔”آپ ایسا کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کریں یہ آپ کا ہی تو گھر ہے۔“شہرین کی اماں سکینہ نے جواب دیا۔پھر دوسرے تایا کی فیملی بھی آگئی اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔

”مکافات عمل ہے اگر ہم کسی کے کام نہ آئیں تو کل کوئی ہمارے کام بھی نہیں آئے گا۔ہم آج افضل کے لئے شہرین کا رشتہ مانگتے ہیں ۔“چھوٹے تایا نے کہا۔اماں کیوں خدا کی رحمت سے انکار کرتیں ادھر شہرین کے بھی خوشی کے مارے آنسو نکل آئے کہ اتنا اچھا انسان اس کی زندگی میں شامل ہونے جا رہا تھا جس نے بروقت مدد کرکے اس کی اماں کو نئی زندگی دی تھی بلکہ اس نے دونوں گھروں کی آنکھیں بھی کھول دی تھیں خدا ہمارے لئے جو بھی کرتا ہے بہتر کرتاہے آج اس کو اس بات کی سمجھ آئی تھی۔

 

Woh Surkh Ankhain|Bachon Ki Sachi Kahaniyan

0
وہ سرخ آنکھیں 

وہ سرخ آنکھیں 

وہ سرخ آنکھیں 

میں نے کبھی ایسا پرندہ نہیں دیکھا تھا اس کا سارا بدن کالے بالوں سے بھرا ہوا تھا اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر میں نے دہشت کے مارے بھاگنا شروع کر دیا آیت الکرسی کا ورد میری زبان پر جاری تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز

دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا سردیاں اپنے جوبن پر تھیں دور دور تک ہر چیز نے سفید چادر تان رکھی تھی ابھی بھی برف روئی کی مانند گر رہی تھی وقفہ وقفہ سے دیودار کے درختوں کی شاخیں چٹخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی گہری خاموشی روح تک میں سنسنی پیدا کر رہی تھی۔مٹی کا کشادہ کمرہ جس کے بیچوں بیچ جلتی لکڑیوں کا الا دہک رہا تھا اور اس کے اردگرد ہم سب دادی کو گھیرے میں لیے بیٹھے تھے۔

دادی اماں نظریں دہکتی لکڑیوں پر جمائے ماضی کے صفحوں کی ورق گردانی کر رہی تھیں۔کچھ دیر بعد گلا کھنکارتے ہوئے گویا ہوئیں،یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پانی کی قلت کے باعث میں اور صنوبر آپا سحری کے وقت پانی بھرنے جاتے تھے صنوبر آپا مجھ سے عمر میں کافی بڑی تھیں،صنوبر آپا کبھی اذان سے پہلے اور کبھی اذان کے فوراً بعد پانی بھرنے کے برتن لیے آتیں اور ہمارے گھر کی دیوار پر برتن سے ضربیں لگاتیں،چونکہ میرا بستر دیوار کے ساتھ ہوتا اس لئے میں فوراً اُٹھ جاتی،اپنے برتن اُٹھاتی اور باہر آ جاتی۔

ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوتا تھا اور گیدڑوں کی دلخراش آواز دل جھنجھوڑ دیتی تھی۔دل میں ڈھیروں خوف لیے ہم سہج سہج کر قدم بڑھائے جاتے تھے گھر تو چونکہ اس زمانہ میں اِکا دُکا ہی موجود ہوتے تھے اور ہمیں پانی لانے کے لئے طویل مسافت طے کرنی پڑتی تھیں۔جھاڑیوں میں تھوڑی سی ہل چل ہوتی تو ہمارا دل اُچھل کے حلق میں آن پہنچتا،صنوبر آپا کافی مضبوط اعصاب کی مالک تھی،جبکہ میں کافی ڈرپوک واقع ہوئی تھی،پانی لانا میری مجبوری تھی کیونکہ گھر میں ایک بوڑھی ساس تھیں اور تین بچے میری ایک بیٹی اور دو بیٹے،شوہر تو روزی روٹی کمانے کے سلسلے میں باہر نکلتے تو مہینوں بعد ہی واپس لوٹتے تھے۔

آگے آگے صنوبر آپا ہوتی تھیں جبکہ پیچھے میں ہوتی تھی اور کبھی کبھار تو مجھے واضح محسوس ہوتا تھا کہ میرے پیچھے کوئی اور بھی چلتا آ رہا ہے اپنے پیچھے اُٹھائے جانے والے قدموں کی آواز میں بخوبی سنتی تھی لیکن مجھے صنوبر آپا ہمیشہ نصیحت کرتی تھیں کہ کبھی کسی چیز کے پیچھے نہ جانا چاہے تم کچھ بھی دیکھ لو اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہے تمہیں کچھ بھی سنائی دے رہا ہو۔میں نے ان کی بات کو دل پر نقش کر دیا،میں اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر زور سے آنکھیں بند کر لیتی اور دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیتی لیکن جب طویل سفر طے کرنے کے بعد بیٹھنے کو جی چاہتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے بالکل ساتھ کوئی بیٹھا ہے گردن گھما کر اِدھر اُدھر دیکھنے پر سوائے اندھیرے کے کچھ دکھائی نہ دیتا،ہمارا روز کا آنا جانا تھا اِک روز مجھے آواز آئی کہ دیوار پر ضربیں ماری جا رہی ہیں میں اُٹھی اپنے برتن اُٹھائے لیکن گہرا اندھیرا دیکھ کر ٹھٹھک گئی مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آدھی رات کا وقت ہو،میں باہر گئی تو دیکھا صنوبر آپا کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا میں نے یہ سمجھ کر قدم رستے پر ڈال دئیے کہ وہ زیادہ دور نہیں ہوں گی اور میں ان تک پہنچ جاؤں گی گیدڑوں کی آوازیں پل بھر کو میرے قدم ساکت کر دیتی تھی میں نے بھاگنا شروع کر دیا لیکن میں ان تک نہیں پہنچ سکی۔

بگڑے تنفس کے ساتھ میں نے مسافت طے کی اور جائے وقوعہ پہنچ کر میرے اندر تک سنسنی دوڑ گئی صنوبر آپا وہاں موجود نہیں تھی میں تھوڑا اوپر کھڑی تھی اور نیچے دیکھا جہاں پانی کا کنواں تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی پانی کے ڈول یکے بعد دیگرے اپنے اوپر بہا رہا ہو میں نے نیچے جانا ضروری نہ سمجھا اور پانی کا ڈول اُلٹا کر اس پر بیٹھ گئی لیکن تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد بھی پانی کی آواز بدستور آ رہی تھی مجھے عجیب و غریب خیالات آ رہے تھے اور پانی کی آواز سے عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا۔

اپنے پیچھے کسی کو محسوس کیا تو میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی میں نے لرزتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی کا نام و نشان بھی نہ تھا وہاں اک دم سے سناٹا چھا گیا میری حیرت کی انتہا نہ رہی لیکن عین اسی جگہ اوپر گھنے درخت کی شاخ پر کوئی عجیب سا پرندہ بیٹھا مجھ پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا عجیب قسم کا پرندہ تھا میں نے کبھی ایسا پرندہ نہیں دیکھا تھا اس کا سارا بدن کالے بالوں سے بھرا ہوا تھا اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر میں نے دہشت کے مارے بھاگنا شروع کر دیا آیت الکرسی کا ورد میری زبان پر جاری تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز۔

میں نے ایک منٹ کے لئے بھی رستہ میں رُکنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے گھر کے پاس پہنچ کر دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسی وقت صنوبر آپا اپنے گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئیں ان کے پاس ڈول بھی تھے اور میں دروازہ کا پٹ کھولنا چاہ رہی تھی لیکن اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور بے ہوش ہو گئی۔آنکھ کھلی تو دیکھا اردگرد سب جمع تھے صنوبر آپا کے گھر کے سب افراد بھی بیٹھے تھے میں نے پانی کے لئے آواز دی تو سب لپک آئے۔

تھوڑی طبیعت بحال ہونے پر معلوم ہوا کہ آج چوتھا روز تھا اور میں مسلسل بے ہوشی کی حالت میں تھی۔میں نے اس روز کا واقعہ سب کے گوش گزار کیا تو صنوبر آپا ماتھا پیٹ کے رہ گئیں اور بولیں جیسا تم کہہ رہی ہو یہ درست ہے تو ہم اس کو معجزہ ہی سمجھیں کہ تم زندہ سلامت لوٹ آئی ہو۔میں نے رب کا شکر ادا کیا‘آج بھی بدن پر سنسنی طاری ہو جاتی ہے جب کبھی اس پانی کی آواز اور اس عجیب و غریب پرندے کا بالوں بھرا جسم آنکھوں کے سامنے آ جائے۔

15+One Line Quotes In Urdu

0

One Line Quotes In Urdu

The beauty of Urdu lies in its ability to convey profound meanings in succinct expressions. One-line Urdu quotes capture complex emotions and ideas in a concise yet impactful manner. For example, “زندگی کی راہ میں کبھی کبھی راستہ بھٹکتا ہے، لیکن راہنمائی ہمیشہ دل میں موجود ہوتی ہے”

کبھی بھی کسی ایک شکست کو حتمی شکست سے الجھاؤ نہیں۔

 

کامیابی ناکامی کے ذریعے چلنا ہے۔

پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہیں

ناکامی کامیابی سے زیادہ علم دیتی ہے۔ ناکامی آپ کے کردار کی تعمیر کا حصہ ہے۔

آپ کی منزل وہاں تک ہے جہاں تک آپ ہمت نہیں ہارتے

کامیابی کامیابی سے نہیں بنتی۔ کامیابی ناکامیوں سے بنتی ہے۔

 

کامیابی اور ناکامی میں فرق یہ ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا اور میں کر سکتا ہوں۔

کوشش کریں اور دوبارہ کوشش کریں۔ بہتر طریقے سے ناکام رہیں۔

ناکامی اور کامیابی ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ دونوں حصے ہیں۔

کبھی بھی کسی ایک شکست کو حتمی شکست سے الجھاؤ نہیں۔

کامیابی حتمی نہیں ہے، ناکامی مہلک نہیں ہے، یہ جاری رکھنے کی ہمت ہے جس کا شمار ہوتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہو کہ آپ کے خواب سچ ہوں تو پہلے آپ کو جاگنا ہوگا

Rain| Barish quotes in urdu

0
Rain| Barish quotes in urdu

Rain| Barish quotes in urdu

Barish, or rain, is a common theme in Urdu poetry. It evokes various emotions and moods, such as love,  sadness, joy, and hope. Barish is a word that means rain in Urdu and hindi.Some of the famous poets who wrote about barish include Mirza Ghalib, Faiz Ahmed Faiz, Parveen Shakirr etc. Here are some examples of barish poetry in urdu and barish quotes.You can use romantic and sad barish quotes or rain quotes in urdu to express your feelings with one whom you love.

نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشم تر کے بغیر

nikal gaye hain jo baadal barsne walay thay
yeh shehar aabb ko tarse ga chasham tar ke baghair

بارش کی بوندیں ہی اسے میری یاد دلا دیں
بارش میں کبھی ہم بھی ساتھ چلے تھے

barish mein bhigne se to achay hain
Tishna jo shaakh se toot jatay hain

شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

hamein kya maloom tha ke
yeh mausam yun ro parre ga

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نا جب ان کو ہم آئے

ab kon se mausam se koi aas lagaye
barsaat mein bhi yaad na jab un ko hum aaye

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچہ تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

In Barishon Se Dosti Achi Nahi FARAZ,
Kacha Tera Makan Hai Kuch To Khayal kar

بارش میں بھیگنے سے تو اچھے ہیں
تشنہ جو شاخ سے ٹوٹ جاتے ہیں

barish mein bhigne se to achay hain
Tishna jo shaakh se toot jatay hain

ہمیں کیا معلوم تھا کہ
یہ موسم یوں رو پڑے گا

hamein kya maloom tha ke
yeh mausam yun ro parre ga

ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے

toot padtee theen ghatain jin ki ankhen dekh kar
woh bhari barsaat mein tarse hain pani ke liye

اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہی
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

is ne barish mein bhi khirki khol ke dekha naahi
bhigne walon ko kal kya kya pareshani hui

تیری قربت بھی نہیں ہے میسر
اور دن بھی بارشوں كے آ گئے ہیں

teri qurbat bhi nahi hai muyassar
aur din bhi baarisho ke aa gaye hain

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

tamam raat nahaya tha shehar barish mein
woh rang utar hi gaye jo utrney walay thay

“قرآنی واقعات” ہاتھی والوں کا قصہ

0
ہاتھی والوں کا قصہ

ہاتھی والوں کا قصہ

ہاتھی والوں کا قصہ

ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔

اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔

راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔

یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔

اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔

اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔

“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔ (آیت – ١ تا ٥)